Pages

Monday, May 11, 2015

I have No picture of My Mother at World Mother,s Day میرے پاس ماں کی تصویر نہیں وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


جس طرح امریکہ کروڑوں برس سے ہے لیکن جب کولمبس نے اسے دریافت کیا تب امریکہ کی قدر شروع ہوئی۔ جس طرح نصرت فتح علی خان 40 برس پی ٹی وی پر اپنا جادو جگاتا رہا مگر اکثر ناظرین اسے رات 10 سے 11 بجے والا قوال سمجھ کر کبھی نہ سمجھ پائے۔ اور پھر ایک روز پیٹر گیبریل نے نصرت کو ایسا دریافت کیا کہ نصرت فیشن ہوگیا۔
بالکل اسی طرح ماں کے ساتھ بھی ہوا۔ ویسے تو ماں نے مجھے جنم دیا، پال پوس کے بڑا کیا اور ہمیشہ اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھا۔ لیکن کل سوشل میڈیا پر جا کے پہلی بار ماں کے دریافت ہونے کا احساس ہوا۔ ماں چوبیس گھنٹے تک پوری آب و تاب کے ساتھ سائبر اسکرین پر فیشن میں رہی اور آج دوبارہ روائتی استھان پر آ گئی۔ اب اگلا مدرز ڈے آئے گا تو دیکھیں گے۔ کٹ پیسٹ، فارورڈ اور ٹیگ کریں گے، ماں تجھے سلام لکھیں گے۔
میں کل سے سوچ رہا ہوں کہ ماؤں کو واقعی مدرز ڈے کی ضرورت ہے یا پھر ہمارا اپنا کوئی لاشعوری احساسِ ندامت ہمیں الگ سے مدرز ڈے منانے پر اکساتا ہے۔ حالانکہ ہم چاہیں تو روزانہ بغیر اعلان کے مدرز ڈے منا سکتے ہیں۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرا کر، حال پوچھ کر، حال سنا کر، ہاتھ بٹا کر، کچھ دیر پاس بیٹھ کر، گود میں سر رکھ کر، اسے بغیر جتائے اہم بنا کر ۔۔ تو کیا یہ بہت مشکل ہے ؟؟
لیکن کبھی کسی ماں کو کسی نے الگ سے چلڈرنز ڈے مناتے دیکھا ؟ مائیں مرتے دم تک اس کے علاوہ بہانے بہانے سے اور کیا کرتی ہیں ؟
بقول عبید اللہ علیم الگ سے دن منانا یقیناً اچھا عمل ہے مگر یہ اچھائی صنعتی معاشروں کی مجبوری سے پیدا ہوئی ہے جس نے خاندان کو جبرِ معاش کے سبب بکھیر کے رکھ دیا۔ شام کو ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے والا دسترخوان لپٹوا دیا، خونی رشتوں کو شمال، جنوب، شرق و غرب کی جانب دھکیل دیا۔ لیکن جن سماجوں میں آج بھی بہن بھائی، والدین اور بچے ہاتھ بھر کے فاصلے پر ہیں یا اگر نہیں بھی ہیں تو مواصلاتی انقلاب کے سبب فاصلوں کو فتح کر چکے ہیں وہ چاہیں تو روزانہ کوئی سا بھی ڈے منا سکتے ہیں۔ بس ماں یا باپ کو آواز ہی تو سنانی ہے ، تصویر ہی تو دکھانی ہے۔ کیسی ہو ماں ہی تو کہنا ہے ؟ اور اس کے بدلے ڈھیر ساری دعائیں ہی تو ملیں گی۔ بس ہوگیا مدرز ڈے ، فیملی ڈے ، ہیپی ڈے۔۔۔
مگر ہائے ری مارکیٹنگ ۔۔کل مجھے ایک بھی تصویر نہیں ملی ماں کے ساتھ کھنچوائی ہوئی۔ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ کھنچوا ہی لوں۔۔ماں کو تو خیر کیا فرق پڑے گا ۔۔مگر دنیا کو ضرور پڑے گا۔۔۔آفٹر آل آئی ایم ناٹ دیٹ مچ آؤٹ آف فیشن ۔۔۔۔
ویسے کل کس کس نے اپنی کام والیوں کو ایک دن کی نہ سہی آدھے دن کی چھٹی دی تاکہ ان کے بچے بھی مدرز ڈے منا لیں ؟؟؟؟
ہاں الگ سے ایک مدرز ڈے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اس قدر مصروف ہیں کہ لاف آؤٹ لاؤڈر ایل او ایل میں اور ریسٹ ان پیس بھی آر آئی پی کے ڈبے میں پیک کر چکے ہیں۔
ارے اچھا یاد آیا ۔۔گھر میں ایک اور صاحب بھی تو رہتے ہیں ابا ابا نام کے۔ سنا ہے بھلے سے آدمی ہیں ۔۔۔ذرا معلوم تو کرنا ان کا یوم کب ہے۔۔۔